Thursday, February 12, 2015

Car Mein Petrol Barwane Ki Tension Ab Nahi

گاڑی میں پیٹرول بھروانے کی ٹینشن اب نہیں

سی این جی کے حصول کے لیے گھنٹوں قطار میں لگے رہنے کی اذیت سے پاکستانی بخوبی آشنا ہیں۔

اپنی باری آنے کے منتظرین کے دلوں میں یہ خواہش یقیناً پیدا ہوتی ہوگی کہ کاش بجلی اور گیس کے بِلوں کی ادائیگی کی طرح انھیں سی این جی بھروانے کے لیے قطار میں کھڑے ہونے کی اذیت سے نجات مل جائے۔ شائد انھی ’ بے چاروں‘ کے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سوئڈن کی مشہور گاڑی ساز کمپنی ایسی کاریں تیار کررہی ہے جنھیں ایندھن بھروانے کے لیے گیس اسٹیشن لے جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر گاڑی میں سی این جی یا پیٹرول کیسے بھرا جائے گا۔ دراصل جب فیول ٹینک میں ایندھن ختم ہونے کے قریب ہوگا تو کار اسمارٹ فون کے ذریعے ’ موبائل فیول سپلائر‘ کو میسیج بھیجے گی۔ اس میسیج کے جواب میں ایندھن فراہم کرنے والی کمپنی کی گاڑی وہاں پہنچے گی۔ گاڑی میں سوار عملے کا رکن میسیج کے ساتھ بھیجے گئے کوڈ کی مدد سے کار کے فیول ٹینک کا ڈھکن کا کھولے گا اور ایندھن بھردے گا۔ اس طرح کار چلانے والا ایندھن کی طرف سے بالکل بے فکر ہوجائے گا۔

اس پروجیکٹ کے بارے میں سویڈش کمپنی میں شعبہ ٹیکنالوجی کے سربراہ کلاس بینڈرک نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا،’’اسمارٹ فون کا بڑھتا ہوا استعمال نئے دَر وا کررہا ہے۔ اس کا دائرہ کار اب آٹوموٹیو انڈسٹری تک وسیع ہوگیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کار اور ڈرائیور کے باہمی رشتے کو نئی سمت دے رہی ہے۔‘‘

کلاس بینڈرک کے مطابق ان کی کمپنی اپنی کاروں میں انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے نت نئے استعمالات کے تجربات کررہی ہے۔ اس سلسلے میں کمپنی ایک ایسے نظام کی کام یاب آزمائش کرچکی ہے جس کے ذریعے ڈرائیور کوریئر فرم سے پارسل گھر یا دفتر کے بجائے کار میں وصول کرسکے گا۔ یہ سروس بالخصوص ان ملازمین کے لیے مفید ثابت ہوگی جنھیں اپنے دفتر کی حدود میں نجی پارسل وصول کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

سویڈش کمپنی کی کچھ کاروں میں یہ سہولت دی گئی ہے کہ ڈرائیور گھر کے اندر سے باہر کھڑی گاڑی کی ونڈ اسکرین پر جمی برف کو ہٹانے کے لیے de-icer کو فعال کرسکتے ہیں۔ یوں جب وہ باہر جانے کے لیے گاڑی تک پہنچیں گے تو ونڈ اسکرین برف سے پاک ہوچکی ہوگی۔ اسی طرح ایک جدید نظام کی بدولت وسیع کار پارکنگ میں کھڑی ہوئی گاڑی ہارن بجاکر اور بتیاں جلا بجھاکر ڈرائیور کو اپنی جانب متوجہ کرسکے گی۔

No comments:

Post a Comment