Friday, February 13, 2015

Tohmat ki Saza in Islam

Quran Mein Tohmat Lagane ki Saza

مدینہ منورہ کے گرد و نواح میں ایک ڈیرے پر ایک عورت فوت ہوجاتی ہے تو دوسری اسے غسل دینے لگی۔ جو غسل دے رہی تھی جب اس کا ہاتھ مری ہوئی عورت کی ران پر پہنچا تو اس کی زبان سے نکل گیا۔ میری بہنو (جو دو چار پاس بیٹھی ہوئی تھیں) یہ جو عورت آج مرگئی ہے اس کے فلاں آدمی کے ساتھ خراب تعلقات تھے۔

غسل دینے والی نے جب یہ کہا تو قدرت کی طرف سے گرفت آگئی اس کا ہاتھ ران پر چمٹ گیا۔ جتنا کھینچتی ہے وہ جدا نہیں ہوتا زور لگاتی ہے مگر ران ساتھ ہی آتی ہے۔ دیر لگ گئی۔ میت کے ورثاءکہنے لگے بی بی جلدی غسل دو شام ہونے والی ہے۔ ہم کو جنازہ پڑھ کر اس کو دفنانا بھی ہے۔ وہ کہنے لگی میں تو تمہارے مردے کو چھوڑتی ہوں مگر وہ مجھے نہیں چھوڑتا۔ رات پڑ گئی مگر ہاتھ یونہی چمٹا رہا۔ دن آگیا پھر ہاتھ چمٹا رہا۔ اب مشکل بنی تو اس کے ورثاءعلماءکے پاس گئے۔

ایک مولوی سے پوچھتے ہیں عالم صاحب ایک عورت دوسری عورت کو غسل دے رہی تھی تو اس کا ہاتھ اس میت کے ساتھ کی ران کے ساتھ چمٹا رہا۔ اب کیا کیا جائے۔ وہ فتویٰ دیتا ہے کہ چھری سے اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ غسل دینے والی عورت کے وارث کہنے لگے ہم تو اپنی عورت کو معذور نہیں کرانا چاہتے ہم اس کا ہاتھ نہیں کاٹنے دیں گے۔

انہوں نے کہا فلاں مولوی کے پاس چلیں اس سے پوچھیں تو کہنے لگا چھری لے کر مری ہوئی عورت کا گوشت کاٹ دیا جائے مگر اس کے ورثاءنے کہا کہ ہم اپنا مردہ خراب کرنا نہیں چاہتے تین دن اور تین رات اسی طرح گزر گئے۔ گرمی بھی تھی۔ دھوپ بھی تھی۔ بدبو پڑنے لگی۔ گرد و نواح کے کئی کئی دیہاتوں تک خبر پہنچ گئی۔ انہوں نے سوچا کہ یہاں مسئلہ کوئی حل نہیں کرسکتا۔ چلو مدینہ منورہ میں وہاں امام مالک رحمتہ اللہ اس وقت قاضی القضاة کی حیثیت میں تھے۔ وہ امام مالک رحمتہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگے حضرت ایک عورت مری پڑی تھی۔ دوسری اسے غسل دے رہی تھی اس کا ہاتھ اس کی ران کے ساتھ چمٹ گیا ہے چھوٹتا ہی نہیں تین دن ہوگئے کیا فتویٰ ہے ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا مجھے لے چلو۔ وہاں پہنچے اور چادر کی آڑ میں پردے کے اندر کھڑے ہوکر غسل دینے والی عورت سے پوچھا بی بی! جب تیرا ہاتھ چمٹا تھا تو تونے زبان سے کوئی بات تو نہیں کہی تھی۔ وہ کہنے لگی میں نے اتنا کہا تھا کہ یہ جو عورت مری ہے اس کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔امام مالک رحمتہ اللہ تعالیٰ نے پوچھا بی بی جو تونے تہمت لگائی ہے کیا اس کے چار چشم دید گواہ تیرے پاس ہیں؟ کہنے لگی نہیں۔ پھر فرمایا: کیا اس عورت نے خود تیرے سامنے اپنے بارے میں اقرار جرم کیا تھا۔ کہنے لگی نہیں۔ پھر تونے کیوں تہمت لگائی؟ اس نے کہا میں نے اس لئے کہہ دیا تھا کہ وہ گھڑا اٹھاکر اس کے دروازے سے گزررہی تھی۔یہ سن کر امام مالک رحمتہ اللہ تعالیٰ نے وہیں کھڑے ہوکر پورے قرآن میں نظر دوڑائی پھر فرمانے لگے قرآن پاک میں آتا ہے (وَالَّذِینَ یَرمُونَ المُحصَنَاتِ ثُمَّ لَم یَا تُوابِاَربَعَةِ شُہَدَائَ فَاجلِدُوہُم ثَمَانِینَ جَلدَةً) سورة النور آیت 14 جو عورتوں پر ناجائز تہمتیں لگادیتے ہیں پھر ان کے پاس چارگواہ نہیں ہوتے تو ان کی سزا ہے ان کو اسی کوڑے مارے جائیں تونے ایک مردہ عورت پر تہمت لگائی تیرے پاس گواہ نہیں تھا۔ میں وقت کا قاضی القضاة حکم کرتا ہوں۔ جلادو! اسے مارنا شروع کردو۔ جلادوں نے اسے مارنا شروع کردیا۔ وہ کوڑے مارے جارہے ہیں ستر کوڑے مارے مگر ہاتھ یونہی چمٹا رہا۔ پچھتر کوڑے مارے گئے مگر پھر بھی ہاتھ یونہی چمٹا رہا۔ اناسی کوڑے مارے تو ہاتھ پھر بھی نہ چھوٹا۔ جب اسی واں کوڑا لگا تو اس کا ہاتھ خود بخود چھوٹ کر جدا ہوگیا۔

No comments:

Post a Comment