Umeed ka Diya
میں نے ڈاکٹر کی فیس ادا کرکے نمبر لیا اور استقبالیہ کے سامنے بیٹھ گیا ۔ یہ شہر کا ایک مشہور اور نام ور ڈاکٹر تھا اس لیے اس کی فیس بھی کافی زیادہ تھی ۔ مریض آتے گئے ، نمبر لیتے گئے ۔ سب مریض انتظار میں بیٹھے تھے کیونکہ ڈاکٹر صاحب ابھی تشریف نہیں لائے تھے ۔
اتنے میں ایک بوڑھی عورت اپنے ساتھ ایک نوعمر لڑکے کو لے کر استقبالیہ پر آئی ۔ اس کی آنکھوں میں امید کے دیے جل رہے تھے ۔ اس نے استقبالیہ پر فیس پوچھی ۔ فیس سن کر آنکھوں میں جلتے دیے بجھ گئے ۔ اس نے بیمار لڑکے کا ہاتھ تھاما اور دروازے کی طرف واپس بڑھی ۔
میں اپنی جگہ سے اٹھا اور انہیں روکا ۔ پھر میں اپنا نمبر اور فیس کی رسید انہیں دے کر ہاسپٹل سے باہر آگیا۔ کیونکہ مجھے کوئی بیماری نہیں تھی ۔ میں ہر ماہ اسی طرح فیس بھر کر اپنا نمبر کسی مستحق مریض کو دے دیتا ہوں ۔ پھر پورا مہینہ مجھے کسی بھی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا پڑتا
No comments:
Post a Comment