Phool Khilne Mein Waqt Lagta Hai
صبح جب میں گھر سے نکلا تو باہر رکھے گلاب کے پودے میں سے ایک چھوٹا سا گلاب کا پھول ٹوٹا ہوا پڑا تھا۔ شاید تھوڑی دیر پہلے ہی گرا تھا اسی لیے بالکل تازہ اور کھلا کھلا تھا۔
مجھے پھول توڑنا بالکل پسند نہیں ہے، نہ ہی میں کسی کو توڑنے دیتا ہوں۔ اسی لیے اس چھوٹے سے گلاب کو زمین پر پڑے دیکھ کر بہت افسوس ہوا اور میں نے اسے اٹھا کر اپنی گاڑی کے ڈیش بورڈ پر رکھ دیا۔ کچھ گھنٹوں بعد جب میں نے اسے دیکھا، تو وہ جو صبح کھلا ہوا تھا اب ایک کلی میں بدل چکا تھا اور کافی حد تک مرجھا چکا تھا۔ شاید بلکہ یقینا” سورج کی تپش کی وجہ سے۔
کچھ لوگ بھی ایسے ہی ہوتے ہیں ناں؟ بالکل تروتازہ۔۔۔ ہر پل مسکراتے، خوشیاں بکھیرتے۔۔ مگر پھر ہمارے سخت لہجے یا کڑوے الفاظ بالکل اسی طرح ان کی مسکراہٹ چھین لیتے ہیں جیسے سورج کی تپش پھول سے اس کا بانکپن۔۔۔
وہ ہمارے الفاظ اور لہجے کی گرمی نہیں سہہ پاتے اور بالکل اسی گلاب کے پھول کی طرح مرجھا جاتے ہیں۔ رنگ ماند پڑ جاتے ہیں، تازگی ختم ہوجاتی ہے۔ مگر پھر بھی ان کا احساس، ان کی باتیں ہمارے اردگرد ہمیشہ رہتی ہیں۔ بالکل ایسی ہی خوشبو کی طرح۔۔۔
اپنے ارد گرد کا جائزہ لیجئے۔ کہیں کوئی تازہ گلاب مرجھا نہ جائے۔ کسی کی مسکراہٹ آپ کی ایک جھڑکی کی نذر نہ ہو جائے۔
کیونکہ کِھلنے میں وقت لگتا ہے، مگر مرجھانے کے لیے چند پَل بھی کافی ہوتے ہیں۔۔۔
No comments:
Post a Comment